آج امتحانات سے فارغ ہوکر گزشتہ ہفتے کا اہم واقعات کا جائزہ لیا تو
نادیہ مرزا کے پروگرام میں مولانا حمداللہ کی بدزبانی کا ہرطرف چرچا
پایا۔۔۔۔۔۔پروگرام کی ویڈیو ڈھونڈ کر دیکھی تو مولانا حمداللہ ہمارے جدید
علما کی روایتی تربیت کا آئینہ معلوم ہوئے جس کے مطابق عدم برداشت اور خود
کو عقل کل تسلیم کرتے ہوئے وہ جذبات میں بے قابو ہو گئے۔۔۔۔۔۔پس منظر میں
بیرسٹر مسرور نے ہلکے پھلکے تشدد کا ذکر کرتے ہوئے خوب تیلی لگائی جبکہ
میزبان نادیہ مرزا بھی جوشیلے انداز میں لاہور میں لڑکی کے جلائے جانے کے حادثہ کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ہلکا پھلکا تشدد کے ردعمل کے طور پر ظاہر کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
پروگرام سے اکتا کر فیسبک اکاونٹ کی طرف آیا تو ہلکا پھلکا تشدد سے منسوب کئی طنزیہ اور مزاحیہ باتیں گردش کر رہی تھیں جن سب کا مقصد جہاں مولویوں پر تنقید تھی وہیں غیر محسوس انداز میں اسلام کے متعلق بدگمانیوں کو بھی پروان چڑھایا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔فقط ایک مبہم بات کو بنیاد بنا کر تنقید کا نشانہ بنانے والے شاید یہ بھول گئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے کیے جانے والے تازہ ترین فیصلوں میں مندرجہ ذیل اسلامی احکامات بھی شامل ہیں جب پر عمل پیرا ہوکر معاشرے میں خواتین کو محفوظ مقام دلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔
1۔ خواتین کی قرآن سے شادی کرانے پر 10 سال سزا۔۔
2۔ غیرت کے نام پہ قتل کی سزا قتل کے برابر۔۔
3۔ عورتوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروانے پر 3 سال سزا
4۔ اسقاطِ حمل کی سزا قتل کے برابر۔۔
5۔ عورتوں کی فوج میں شمولیت پہ پابندی۔۔
6۔ مردوں کے وارڈ میں خواتین نرسوں پر پابندی۔۔
7۔ پرائمری تعلیم کے بعد مخلوط تعلیم پہ پابندی۔۔
8۔ نامحرم مہمانوں اور غیر ملکیوں کا استقبال کرنے پہ پابندی
9۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت جائز۔۔
ان حکامات پر عمل کرانے کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر عائد ہوتی ہے جس میں آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی کامیابی کا تناسب صفر ہے۔۔۔۔۔۔۔آزادی کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی نئے قانون کے بننے پر مذہبی طبقہ اور لبرلز میں رسہ کشی رہی جس کی وجہ سے کسی بھی قانون کو اس کی اصل شکل صورت میں نافذ نہیں کیا جاسکا۔۔۔۔۔۔
خواتین کو جلائے جانے کے حالیہ واقعات کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دینا مذہبی منافرت کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں اور ہر دور میں ان میں اضافہ کیا جاتا رہا لیکن ضرورت رہی تو صرف موثر طور پر قوانین نافذ کرنے کی۔۔۔۔۔۔قانون ساز ادارے قانون ترتیب دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جبکہ عوام ان قوانین سے قطعی نابلد رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظی کاروائیوں کی بجائے عملی اقدامات کیے جائیں اور نچلی سطح پر عوام میں شعور اجاگر کرتے ہوئے اسلام اور جدید دور سے ہم آہنگ قوانین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔!!
پروگرام سے اکتا کر فیسبک اکاونٹ کی طرف آیا تو ہلکا پھلکا تشدد سے منسوب کئی طنزیہ اور مزاحیہ باتیں گردش کر رہی تھیں جن سب کا مقصد جہاں مولویوں پر تنقید تھی وہیں غیر محسوس انداز میں اسلام کے متعلق بدگمانیوں کو بھی پروان چڑھایا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔فقط ایک مبہم بات کو بنیاد بنا کر تنقید کا نشانہ بنانے والے شاید یہ بھول گئے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے کیے جانے والے تازہ ترین فیصلوں میں مندرجہ ذیل اسلامی احکامات بھی شامل ہیں جب پر عمل پیرا ہوکر معاشرے میں خواتین کو محفوظ مقام دلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔
1۔ خواتین کی قرآن سے شادی کرانے پر 10 سال سزا۔۔
2۔ غیرت کے نام پہ قتل کی سزا قتل کے برابر۔۔
3۔ عورتوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروانے پر 3 سال سزا
4۔ اسقاطِ حمل کی سزا قتل کے برابر۔۔
5۔ عورتوں کی فوج میں شمولیت پہ پابندی۔۔
6۔ مردوں کے وارڈ میں خواتین نرسوں پر پابندی۔۔
7۔ پرائمری تعلیم کے بعد مخلوط تعلیم پہ پابندی۔۔
8۔ نامحرم مہمانوں اور غیر ملکیوں کا استقبال کرنے پہ پابندی
9۔ خواتین کی سیاست میں شمولیت جائز۔۔
ان حکامات پر عمل کرانے کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر عائد ہوتی ہے جس میں آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی کامیابی کا تناسب صفر ہے۔۔۔۔۔۔۔آزادی کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی نئے قانون کے بننے پر مذہبی طبقہ اور لبرلز میں رسہ کشی رہی جس کی وجہ سے کسی بھی قانون کو اس کی اصل شکل صورت میں نافذ نہیں کیا جاسکا۔۔۔۔۔۔
خواتین کو جلائے جانے کے حالیہ واقعات کا ذمہ دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دینا مذہبی منافرت کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں اور ہر دور میں ان میں اضافہ کیا جاتا رہا لیکن ضرورت رہی تو صرف موثر طور پر قوانین نافذ کرنے کی۔۔۔۔۔۔قانون ساز ادارے قانون ترتیب دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جبکہ عوام ان قوانین سے قطعی نابلد رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لفظی کاروائیوں کی بجائے عملی اقدامات کیے جائیں اور نچلی سطح پر عوام میں شعور اجاگر کرتے ہوئے اسلام اور جدید دور سے ہم آہنگ قوانین کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بقلم خود۔۔۔سعد
0 تبصرے:
Post a Comment
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔