تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Saturday, June 18, 2016

ہلکا پھلکا تشدد

Saturday, June 18, 2016
میری گزشتہ پوسٹ سے ایک محترمہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ میرے مطابق خواتین پر ہلکا پھلکا تشدد جائز ہے۔۔۔۔۔میں کوئی عالم تو ہوں نہیں کہ مذہبی مسائل میں ذاتی رائے جھاڑوں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جو مذہب جانوروں پر تشدد سے بھی منع کرتا ہے وہ کبھی بھی صنف نازک پر تشدد کی اجازت نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔۔اسلامی نظریاتی کونسل کے علما نے یقیناً قرآن و حدیث کو مدنظر رکھ کر ہی یہ بیان دیا ہے، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اپنے من پسند معانی اخذ کیا ہیں۔۔۔۔۔۔۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہود و نصاریٰ نے آسمانی کتابوں میں تحریف کر کے اللہ پاک کے غضب کو للکارا اور ملعون قرار پائے، ہم مسلمان تحریف کے مرتکب ہوکر اللہ پاک سے کھلم کھلا جنگ کا اعلان تو نہیں کرسکتے لیکن عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا فائدہ اٹھا کر قرآن و حدیث سے اپنے من پسند معانی ضرور اخذ کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔اب اگر خواتین پر تشدد کے موضوع کو ہی لیں تو ایک مولانا نے اس تشدد کو قرآن پاک سے کچھ یوں ثابت کیا ہے:
مرد حاکم ہیں عورتوں کے، یہ سبب اس کے کہ جو خرچ کرتے ہیں اپنی مالوں سے پس نیک بخت عورتیں فرمانبردار ہیں، نگہبانی کرنے والی ہیں، بیچ غائب کے ساتھ محافظت اللہ کے اور جو عورتیں کہ تم ڈرتے ہو سرکشی ان کی سے پس نصیحت کرو ان کو اور چھوڑ دو بیچ ان کو خوابگاہ کے اور "مارو ان کو"، پس اگر کہا مانیں تو مت ڈھونڈو اور ان کی راہ، تحقیق اللہ تعالی بلند بڑا ہے (سورہ النسا ۳۴ترجمہ شاہ رفیع الدین )


جبکہ انہی آیات کا ترجمہ جب ایک روشن خیال مولوی مولانا امین احسن نے کیا تو کچھ یوں ہے۔۔۔۔۔
مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ تعالی نے ایک دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے پس جو نیک بیبیاں ہیں، وہ فرمانبرداری کرنے والی، رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے اور جن سے تمہیں سرتابی کا اندیشہ ہو، تو ان کو نصیحت کرو ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑدو اور ان کو "سزا" دو، پس اگر وہ تمہاری اطاعت کریںتو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو بے شک اللہ تعالی بہت بلند اور بڑا ہے۔ ۔ (سورہ النسا ۳۴ )
مندرجہ بالا تراجم میں "اور مارو ان کو" کا ترجمہ جہاں شاہ صاحب کی شدت پسندی کا خمازی ہے وہیں مولانا صاحب کی طرف سے استعمال کردہ لفظ "سزا دو ان کو" بھی وضاحت طلب ہے۔۔۔۔۔حدیث شریف میں اس کے لیے "غیر مبرح" کا لفظ استعمال ہوا جس کے مطابق ایسی سزا جو پائیدار اثر نہ چھوڑے۔۔۔۔۔۔اور یہ سزا صرف ان سرکش خواتین کے لیے ہے جو مرد کے نکاح میں رہ کر تمام فوائد تو حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن سرکشی کا یہ عالم ہے کہ گھر کے نظم و نسق کو برباد کر کے ہمہ وقت شوہر کو ذلیل کرنے کے درپے رہتی ہیں۔۔۔۔۔ایسی خواتین پر نصیحت بمشکل ہی اثر کرتی ہے، اگلا مرحلہ اسلام نے بستر علحیدہ کرنے کا بتایا اور اس کے بعد آخری حل معمولی سزا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو سمجھانے کے لیے ہلکی چپت لگاتی ہے۔۔۔۔۔اس کا مقصد صرف اس کی نسوانی غیرت کو جگانا ہے تاکہ ازدواجی رشتہ کو قائم رکھتے ہوئے طلاق جیسے ناپسندیدہ فعل سے بچا جاسکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بقلم خود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعد

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں