تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
Thursday, June 23, 2016

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔۔۔۔

Thursday, June 23, 2016
امجد صابری بے چینی سے دالان میں ٹہل رہے تھے۔۔۔۔۔زمینی وقت کے مطابق انہیں یہاں آئے چوبیس گھنٹوں سے زیادہ ہوچکے تھے۔۔۔۔انہیں یاد تھا کہ وہ اپنے عزیز کے ہمراہ گاڑی میں سوار خوشگوار موڈ میں "بھر دو جھولی میری یا محمد" پر سردھن رہے تھے کہ سامنے دو اجنبی موٹرسائیکل سواروں نے راستہ روک لیا۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ ان نوجوانوں سے وجہ دریافت کرتے، انہوں نے پسٹل نکالے اور انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے گرم گرم سلاخیں ان کے جسم کے آر پار ہوگئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھوں میں حیرت لیے وہ ان نوجوانوں سے پوچھنا چاہتے تھے، ان لوگوں سے جو موقع پر اکھٹے ہوئے، اپنے احباب سے، ان کی جی چاہا کہ وہ ساری دنیا سے چیخ چیخ کر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی وجہ پوچھیں لیکن ان کی آواز گلے میں پھنس کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔تب انہیں احساس ہوا کہ وہ مرچکے ہیں۔۔۔۔۔۔اپنے احباب کو چھوڑ کے جانے کا احساس ہی تکلیف دہ تھا لیکن وہ مجبور تھے۔۔۔۔۔۔
سب کو روتا چھوڑ کر وہ یہاں آئے تو انہیں سابقہ زندگی سے بڑھ کر سہولیات دی گئیں۔۔۔۔۔لیکن ان کے دل میں وہی خلش، دماغ میں وہی سوال گردش کر رہا تھا۔۔۔۔یہ "کیوں" انہیں بے چین کیے ہوئے تھا۔۔۔۔۔مختلف حکمرانوں کے بیانات سن کر انہیں وقتی طور پر سکون ملا کہ جلد ہی اس کیوں کا جواب مل جائے۔۔۔۔ان کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔۔۔۔لیکن چوبیس گھنٹوں سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی ان کے قاتل قانون کی نظروں سے اوجھل تھے۔۔۔۔ابھی وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھے کہ ان کے غلام نے نہایت ادب سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔۔۔اجازت ملنے پر وہ اندر آیا وہ فرشی سلام کے بعد دست بدستہ عرض کی "حضور یہاں کے پرانے باسی آپ سے ملاقات کے لیے بے چین ہیں" غلام کے توسط سے وہ منتظرین کے پاس پہنچے تو گاو تکیہ لگائے ایک جانی پہچانی شخصیت کو اپنا منتظر پایا۔۔۔۔۔۔۔"آئیے امجد صابری آئیے۔۔۔۔۔زہے نصیب۔۔۔۔۔۔مدت ہوئی ہمیں اپنے وطن کے کسی باسی کو مہماں کیے ہوئے۔۔۔یہ کہتے ہوئے انہوں نے سونے کے کٹورے میں وہاں کا مخصوص مشروب پیش کیا جسے پی کر ان کی خلش جیسے کہیں جذب ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔
کہیے، آپ کچھ بے چین لگ رہے تھے؟؟انہوں نے بارعب انداز میں پوچھا۔۔۔
سن کر کچھ ڈھارس بندھی، امجد صابری نے شکایتی انداز میں بتایا کہ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ انہیں اس انداز میں زمین سے کیوں بےدخل کردیا گیا؟؟ اتنا وقت بیت گیا اور ابھی تک مجھے اپنے قاتلوں کا بھی علم نہیں۔۔۔۔۔
ہمیں جانتے ہیں آپ؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شفیق مسکراہٹ سجائے گویا ہوئے۔۔۔۔۔ہم لیاقت علی خان ہیں۔۔۔۔۔۔پچاس پزار کے مجمع کے سامنے ہمیں گولیاں مار دی گئیں اور ہم چھیاسٹھ سالوں سے اسی "کیوں" کے جواب میں سرگرداں ہیں۔۔۔۔۔۔ان سے ملیے۔۔۔انہوں نے دائیں جانب بیٹھی خاتون کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔یہ بینظیر بھٹو ہیں۔۔۔۔۔۔۔آپ کی طرح انہیں بھی یہ امید ہوچلی تھی کہ ان کے قاتل جلد کیفرکردار تک پہنچا دیے جائیں گے۔۔۔۔۔۔اور انہیں تو آپ جانتے ہی ہونگے۔۔۔یہ سلطان راہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ساری زندگی لوگوں کا تفریح فراہم کرتے رہے لیکن بیس سال گزر جانے کے باوجود انہیں اس "کیوں" کا جواب نہیں مل سکا۔۔۔۔۔۔
لیاقت علی خان شاید مزید کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن اتنے میں پاکستانی خبرنامے کا وقت ہوگیا اور سب لوگ اس طرف ہمہ تن گوش ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

بقلم خود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعد

0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Contact Form

Name

Email *

Message *

Pages

Powered by Blogger.
 
فوٹر کھولیں